Thursday, March 26, 2009

غلامی میں‌بدل جاتا ہے قوموں کاضمیر

پنجابیوں کا مہاجروں کا ایک ہونا ،پنجابی مہاجروں کو ایک سمجھنا ،اصل میں تھے بھی ایک ہی ،کیوں کہ جو پنجابی تھے وہ بھی ہجرت کر کے ہندوستان سے ہی آءے تھے ۔جو علاقے اس سندھ میں رہ گءے تھے ان کےساتھ ہجرت کے وقت ایک ستم ظریفی مزید ہوءی کہ ان علاقوں کے بارے میں ان کی معلومات یہ تھیں کہ یہ پاکستان میں ہی رہیں گے لیکن تقسیم کی صورت میں اُن علاقوں کے لوگوں کو ہندووں اور خصوصاً اپنے ہی اہل زبان لوگوں کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔عورتیں شہید ہوءیں ،اغواء ہوءیں ،بعض نے کنووں میں چھلانگیں لگاءیں اپنی عصمت بچانے کے لءے کیوں کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی عورتوں میں عصمت کا تصور بھی تھا جبکہ اردو بولنے والے مہاجروں کو اپنےاہل زبان غیر مسلموں کے تشدد کا اس قدر نشانہ نہیں بننا پڑا ۔چوں کہ وہ علاقے پہلےہی تھے تقسیم کے بارے میں ۔وہ لوگ لٹے پٹے تو یقیناچوں کہ ایک بنایا بنایا گھر منتقل کرنا ہی ایک آفت سے کم نہیں ہوتا ۔چاہے وہ گھر کرایے کا ہی کیوں نہ ہو ان کی اکثریت اپنی جاءیدادیں اور جمے جماءے گھر بھی چھوڑ کرآءی ،اور ایک مخصوص ماحول اور کلچر بھی ۔ان دونوں چیزوں کی تبدیلی انسان میں ڈپریشن پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہےیقینا ان مساءل کا بھی پنجابی ،مہاجروں دونوں نے سامنا کیا ۔ان دنوں سندھ میں آبادی کم اور رقبہ زیادہ تھا ۔اس لءے اردو بولنے والے مہاجر اور پنجابی بولنے والے مہاجر جا بجا چھوٹے چھوٹے قصبوں میں پھیل گءے ان دونوں طبقات کی اکثریت پنجاب ،سرحد اور بلوچستان کے علاقوں میں آباد ہوءی ۔اور اپنے پچھلے جو پڑھے لکھے تھے وہ بیورو کریسی سے لیکر کلرک پوسٹ میں ریڑھی بان تجربات یا کی مدد سے کاروبار سمیٹ گءے آج بھی آپ ان مہاجروں کے سیٹ ہوءے کاروبار کوءٹہ میں پشاور میں لاہور میں بھی دیکھ سکتے ہیں ان کی تقسیم بلازبان تھی ۔کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ بھاءی دہلی سے آءے ہو تو لاہور کے ایف سی کالج میں کیوں پڑھ رہے ہو ۔آگرہ سے آءے ہو سندھ کےدور دراز علاقے میں کیوں رہ رہے ہو۔پرانی یادیں اور جیسا کہ ہر انسان کی فطرت میں ہوتا ہے،وہ بھی ان کے درمیان تھیں ۔اردو بولنے والے اور پنجابی بولنے والے مہاجروں کی آپس میں شادیاں بھی ہوءیں ۔لہزا آج کل کی اس نسل میں آپ کو بہت سےلوگ ایسے ملیں گے جن کی ماءیں پنجابی ہیں اور باپ اردوبولنے والے ،دادی چچا یعنی دودھیال کےسب رشتہ دار اردو بولنے والے مہاجر اور ننھیال پنجابی بولنے والے مہاجر اور کراچی میں رہتےوہ نوجوان اگر پنجابیوں کو برا بھلا کہیں تو کیسے کیوں کہ ماں کو بُرا بھلا کہنا بہت ہی شرمناک کام ہے ،جو کہ کوءی بے غیرت ہی کر سکتا ہے ۔اس طرح بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کی دودھیال پنجابی بولنےوالی ہے اور ننھیال اردو بولنے والی اسی طرح سندھ کے علاقوں میں ایسے بھی نوجوان ہیں ،میری ذاتی سہیلیاں ایسی تھیں جن کے ننھیال اردو بولنے والے اور دودھیال سندھی بولنےوالے اور سندھ کے پرانے رہاءشی کیوں کہ یہ سب رشتے یعنی نکاح مسلم ہونے کی بناء پر ہوءے تھے ناکہ پنجابی اردو یا سندھی بولنے کی بناء پر ۔جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان بھی مسلم قومیت کی بناء پر ہی بنا تھا ۔کے لسانی فسادات جسمیں اردو کے خلاف مہم چلاءی گءی تو پنجابیوں نے بھر پور ساتھ دیا ۔۔۔۔۔۔متحدہ قومی موومنٹ جو کہ پہلے صرف متحدہ مہاجر موومنٹ کے نام پر وجود میںآءی تھی او اس میں صرف اردو بولنے والوں کی ہی شرکت تھی جبکہ اس میں پنجایبوں کی شرکت بھی لازمی ہونا چاہیے تھی جو کہ بولتے تو پنجابی تھے اور تھے مہاجر ۔۔۔اگر حقوق کے نقطہ نظر سے کوءی پارٹی بنانا مقصود ہی تھی ۔۔۔لیکن ہوا یوں کہ اس پہلو پر یا تو ویں یوم تاسیس کے موقع پر مجھے یاد آرہا ہے کہ جب یہ وجود پذیر ہورہا تھا مدتوں کراچی سلگتا رہا۔۔۔۔جلتا رہا ۔۔چاہے وہ شریِ زیدی کے نام پر سلگا ہو چاہے وہ پختونوں کے نام پر ۔۔۔تھے تو وہ بے چارے بھی مہاجر ہی کیوں کہ ہجرت معاشی بھی ہوتی ہے اسی اثناء میںسندھ کے اندرون علاقوں سے اردو بولنے والے کراچی اور نسبتاً بڑے شہروں میں منتقل ہوتے چلے گءے ۔جو اپنے گھر بار کو چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں سے دور جاتا ہے اسکی ہجرت معاشی ہوتی ہے اس میں وہ اپنے کلچر ،ثقافت ،کھانے ،بولی ہر چیز کی قربانی دیتا ہے چاہے وہ اپنے ہی ملک میں ہجرت کر ے یا دوسرے ملک میں ۔بعض صورتوں میں اس کے مذہب کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں ،جیسے آءے دن ہم انگلینڈ میں رہنے والے معاشی مہاجرین کی اولاد کے بارے میں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔نظام مصطفی کے لءے بہت کردار جماعت اسلامی نے ادا کیا اور چوں کہ بلاد سیل کو کوءی حل نہیںدے سکی تو یہ ایم کیو ایم وجود میں آءی ۔ان اردو بولنے والے متوسط طبقے میں مہاجروں کی بشمول پنجابی اور مہاجروں ایک مضبوط روایت اور کھانے اور اٹھنے بیٹھنے ۔۔حقیقت یہ ہے کہ عمران خان بھی مہاجر ہے چوں کہ اس کے بڑے جالندھر بستیاں سے ہجرت کر کے آءے تھے ۔بجاءے اس کے کہ یہ سب مہاجر مل کر پاکستان کے قیام کے مقصد کو حل کرتے لیکن چوں کہ ہر گروہ میں کالی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں لیکن جب کچھ لوگ بلاتفریق ذات زبان عدلیہ کو بحال کروانے میں شریک تھے تو الطاف بھاءی جان نے کہا دیکھو سندھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں ،حالانکہ سندھ کے اصل رہاءشی تو وہاں خود موجود تھے ،جب کہ اس سے قبل محترمہ بے نظیر شہید ہوءیں تو بھاءی جان نے بیان داغ دیا کہ سندھ کی بیٹی کو پنجاب کی زمین پر مار ڈالا مزید اضافہ کرتے ہوءے فرمایا اس سے قبل بھی سندھ کے فرزند کو پنجاب نے ہی مارا ،جبکہ بھٹو صاحب پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے ہی تشریف لاءے تھے بھٹو خاندان کی ہسٹری دیکھیں تو جیسا کہ ایک بار پیر پگاڑا نے بھی کہا تھا کہ بے نظیر توآراءیں ہے اور آراءیں تو پنجابی ہوتے ہیں ۔لیاقت علی خاں کے قتل کا الزام بھی پنجاب پر لگا دیا گیا جب کہ سب کو پتہ ہے کہ سید اکبر کون تھا اور کہاں سے آیا تھا ۔۔۔۔پنجابی کا محاورہ ہے چور نالوں پنڈ کالی یعنی کہ چور سے زیادہ گٹھری کو جلدی ۔۔۔جب کہ ان کے شوہر نے کہا کہ ہمیں پاکستان چاہیے ،اور ہمیں فخر ہے ان پنجابیوں پر جنھوں نے بی بی کے لءے سینوں پر گولیاں کھاءیں ۔بجاءے اس بات پر خوش ہونے کہ ہماری قوم اتنی با شعور ہوگءی ہے اور اتنی جرات مند ہوگءی ہے کہ کسی بھی مقصد کے لءے متحد ہوجاءے ،ایسے لوگوں اور ایسے نام نہاد قاءدین کی اکثریت لوگوں کو جن کے پاس اپنے معاشی معاملات سے ہٹ کر اتنا ٹاءم ہی نہیں ہوتا کہ ہر بات کی تہہ تک جاءیں ۔مجھے معلوم ہے کہ وہ دعوی کریں گے کہ ہماری جماعت میں فلاں فلاں پنجابی ہے لیکن یہ ایک گروہی جماعت بن گءی ہے ۔جذباتی طور پر گمراہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے ایسے لوگوں کی اکثریت آپ کو ہر قسم کے لوگوں میں ملے گی وہ خواہ خدا کا نام لے کر جذباتی کریں خواہ رسول کا نام لے کر ،خواہ زبان کا سہارا لے کر ،خواہ دوسری برادری ،مسلک کا سہارا لے کر ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں کہ جو لوگ ہمیں مجتمع کر رہے ہیں وہ کہیں ہمارے اجتماع کو غیر مقاصد کے لءے تو استعمال نہیں کر رہے ۔آج کے لءے اتنا ہی <